تم اِسے دیوانگی سمجھو یا کویٔ نام دو
میرے افسانے کو آخر کویٔ تو انجام دو
میں خواب و خیال کی دُنیا سے نکلوں تو سہی
اپنی آ نکھوں سے مجھے نفرت کا پھر پیغام دو
ایک میں ہوں ایک تم ہو تیسرا کویٔ نہ ہو
مجھ کو ایسی صبح دو اِک مجھ کو ایسی شام دو
مجھ کو خود ہی اپنی منزل کا نِشاں مِل جاۓ گا
ہو سکے تو ساتھ میرا اور اِک دو گام دو
بن کے دیکھو آپ اپنے ہی محاسب بھی کبھی
دوسروں کو اپنی نا کامی کا مت اِلزام دو
سامنے دُشمن کے رکھ دی میری گردن کاٹ کر
اِس طرح میری وفاؤں کا تو مت انعام دو