لمحوں کو جیا کرتے سانسوں کو سنا کرتے
برسات کے موسم میں گر تم سے ملا کرتے
اچھا کیا جو تو نے بے اعتنائی برتی
خلوت میں ورنہ تیری پلکوں سے بہا کرتے
الفت کے راستوں میں وحشت نہ اگر ہوتی
ہم کس کو وفا کہتے تم کس پہ جفا کرتے
تیرے حسیں قفس میں قیدی ہی بن کے رہتے
قدموں میں بکھر جا تے گر ہم کو رہا کرتے
قابو ہی نہیں آتے سوچوں کے تانے بانے
ورنہ تیرا تصور آنکھوں سے بنا کرتے
ناموس محبت نے روکا ہے ہمیں ورنہ
دل چاہتا تھا تم سے تھوڑا سا گلہ کرتے
دامن چھڑا کے ہم سے بہتر ہی کیا تو نے
اس بزم حقیقت میں تم خواب کو کیا کرتے
اشعار کا احاطہ کتنا حسین ہوتا
تم لفظ ہمیں دیتے ہم صرف لکھا کرتے