تم چلے آؤ دم نکلتا ہے
بات کرنے سے غم نکلتا ہے
ہجر غم کرب میں کٹی ہے زیست
خون بن کے یہ نم نکلتا ہے
لینے انصاف میں چلا ہوں آج
دیکھ لیتا ہوں سم نکلتا ہے
اس لیے لوگ پیچھا کرتے ہیں
بن سنور کے صنم نکلتا ہے
توں پلا ہی دے اوک سے ساقی
اب کہاں جامِ جم نکلتا ہے
وہ تو معنم تھے ان کی مانی گئی
پاس میرے ہی بم نکلتا ہے
آج شہزاد ملنا ہے جس کو
گھر سے اپنے وہ کم نکلتا ہے