تمنائے دِل جیون میں وہ مقام آئے
پھولوں سے کبھی وقتِ ہم کلام آئے
پُر نور چاند بنے کبھی میرا بھی ہمسفر
کسی روز ستاروں کا میرے گھر قیام آئے
ہو بے چینی سی پورے عالم پہ چھائی
میری محبت سے مِلنے ہر شام آئے
ہو جائے اپنی ذات سے ہی ملاقات
دیوانگی میں کوئی تو شے کام آئے
جو ہو وہ میری یادوں مضطرب
پریم باتوں سے بھرپور حسیں سلام آئے
خوفِ خُدا ہو مگر خوفِ دُنیا نہ ہو
دیر آئے دُرست آئے‘ آئے تو سرِ عام آئے
زندگی گزرے تو محبت کے نام پہ گزرے
موت پہ آئے تو محبت کا نام آئے