تمھارے بعد بھی کچھ دن ھمیں سہانے لگے
پھر اس کے بعد اندھیرے دیے جلانے لگے
چمک رھا تھا وہ چاند اور اس کی محفل میں
سب آنکھیں، آئینے، چھرے شراب خانے لگے
خلا میں تھا کہ کوئی خواب تھا کہ خواھش تھی
کہ اس زمین کے سب شھر شمیانے لگے
نہ جانے کون سے سیارے کا مکین تھا رات
کہ زمیں و زماں سب مجھے پرانے لگے
فضہ شام، سمندر، ستارے جیسے لوگ
وہ بادبان کھلے، کشتیاں چلانے لگے
بس ایک خواب کی مانند ھے غزل میری
بدن سنائے اسے روہ گنگنانے لگے
ھزاروں سال کے انسان کا تجربہ ھے جو شعر
تو پل میں کیسے کھلے وہ جسے زمانے لگے
سیا رات کی حد میں اگر نکل آئی
دیے کے سامنے خورشید جگمگانے لگے
ھر اک زمانہ زمانہ ھے میر صاحب کا
کہا جو ان نے تو ھم بھی غزل سنانے لگے