تمہارے نام کا سکہ اچھال سکتا ہوں
تمہیں سلیقے سے میں دیکھ بھال سکتا ہوں
ابھی تو صرف بگاڑا ہے تیری عادت کو
میں تجھ کو خود میں ابھی اور ڈھال سکتا ہوں
جو تیری ذات سے مجھ کو ملے ہیں اے جاناں
میں ان غموں کو کلیجہ میں پال سکتا ہوں
مرے خدا کی خدائی اگر نواز دے تو
سمندروں میں بھی رستا نکال سکتا ہوں
میں اپنے عہد کا جگنو ہوں دیکھنا اک دن
بڑے بڑوں کو میں حیرت میں ڈال سکتا ہوں
اگر ملے جو غم روزگار سے فرصت
تو میں بھی ذہن کا دریا کھنگال سکتا ہوں
پڑے گی دھوپ جو تم پر تو ابر بن کر کے
تمہارے سر سے میں سورج کو ٹال سکتا ہوں