تمہیں پیار ہے تو یقین دو
Poet: Arif Ishtiaque By: Arif Ishtiaque, Karachiتمہیں پیار ہے تو یقین دو
مجھے نہ کہو کہ تمہیں پیار ہے ۔ مجھے دیکھنے کی ضد نہ کرو
تمہیں فکر ہو میرے حال کی
کوئی گفتگو ہو ملال کی
جو خیال ہو نہ کیا کرو
نہ کہا کرو میری فکر ہے
میں عزیز تر ہوں جہان سے
یا ایمان سے نہ کہا کرو
نہ لکھا کرو مجھے ورق پر کسی فرش پر
نہ اْداس ہو نہ ہی خوش رہو
مجھے سوچ کر یا کھروچ کر میری یاد کو نہ آواز دو
مجھے خط میں لکھ کے خداؤں کا نہ د و واسطہ
تمہیں پیار میں نہ قرار ہے، مجھے اِس زباں کا یقین نہیں
کچھ اور ہو ، جو سْنا نہ ہو ، جو کہا نہ ہو ، جو لکھا نہ ہو
جو کہیں نہ ہو
تو یقین ہو
رکو اور تھوڑا سا ضبط لو، مجھے سوچ لینے کو وقت دو
چلو یوں کرو میرے واسطے کہ بلند و بالا عمارتوں کا لو جائزہ
جو فلک کو بوسہ لگا رہی ہوں عمارتیں
جو تمہارے پیار سے لے رہی ہوں مشہابتیں
جو ہو سب سے زیادہ بلند و بالا الگ تھلگ
اْسے سَر کرو
اْسے چھت تلک ، ہاں یہیں رکو یہ وہ ہی ہے چھت
زرا سانس لینے کو قیام لو، میرا نام لو
تو سفر کی ساری تھکن یہیں پہ اْتار لو
اب میرے تمہارے جو درمیاں میں ہے فاصلہ وہ زرا سا ہے
وہ مٹا سکو تو یہ غرور ڈھاتی بلندیوں کو پھلانگ دو
ابھی جان دو!
تمہیں پیار ہے تو یقین دو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






