تمہاری تصویر دیکھتے ہوئے
تمہیں ہی ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
اک ورق پے ُادھوری داستان لکھی ہیں
دیدہ نم سے جنہیں پڑھ رہی ہیں آنکھیں
سن سکوں تو میرا دل تمہیں صدا دیتا ہے
خاموش لب سہی مگر انتظار کر رہی بیں آنکھیں
کاش اب تو تمہارے ہاتھوں کی عنایت ہو
گلابی ُرخساروں پربہت اشک بار ہیں آنکھیں
تم کیوں نظریں جھکا لیتے ہو تصویر میں بھی
جب جدائی پے تم سےسوال کر رہی ہیں آنکھیں
چلو ! آج بہت دیر تک سوتے ہیں لکی
برسوں سے اک حسین خواب کی راہ تک رہی ہیں آنکھیں