ند آندھی میں پروں کا کھولنا اچھا لگا
نَشہ پندار میں یوں ڈولنا اچھا لگا
شہر کی پُرشور آوازوں کے جنگل میں تیرا
اِس طرح سرگوشیوں میں بولنا اچھا لگا
اجنبی لہجہ تھا لیکن، کیا رسیلا گیت تھا
دھیمے دھیمے کانوں میں رس گھولنا اچھا لگا
شہرِ خوباں میں تھے اکثر لوگ پتھر دل مگر
پتھروں سے ہم کو ہیرے رولنا اچھا لگا