تو رنجشوں میں رکھ بیٹھا نہ جانے کیا بات تھی
میری دل کی پناہوں میں کچھ اور بات تھی
وہ ہجر کی بات میرے سمجھ سے باہر نکلی
ہم اپنے آپ سے نہ مل پائے یہ اور بات تھی
سبھی دراڑیں ہواؤں کو سُپرد کرنے سے پہلے
کبھی مل بیٹھ کر سوچتے تو اور بات تھی
وہ بھولنے سے پہلے رہی یاد کی شکایت
اقرار کی حدوں میں جو رہی وہ اور بات تھی
کس نے اپنی گرم سانسوں میں جلن نہیں پائی؟
ہاں مگر یوں شعلے نہ اُبھرے یہ اور بات تھی
زندگی غموں میں یونہی بٹورکے بھی سنتوشؔ
پھر موت سے کیا پوچھنا کہ آخر کیا بات تھی