تو سج ہی آج بتا تیرے ہم کہاں سے نہیں
تری ہے روح سے کیا پیار جسم و جاں سے نہیں
کبھی بھی غور سے دیکھا نہیں مجھے تم نے
تو کہتا روز ہے میرے حسیں فلاں سے نہیں
غریب میں نہیں ہوں دیکھ مت حقارت سے
کبھی تو گزرا مرے تو حسیں مکاں سے نہیں
ہو پیار جائے تو دیکھی شکل نہیں جاتی
یہ پیار ملتا کسی سیٹھ کی دکاں سے نہیں
نہ جانے کتنے ہی الزام یوں لگا دیتے
یہ واسطہ پڑا ترا کسی ملاں سے نہیں
میں نے نہیں ہے کہا کچھ تجھے مرے ساجن
تو بولتا ہے کہ مرے لمس چھو یہاں سے نہیں