تیرے جنوں میں ہم نے زمانہ بھلا دیا
راہوں میں تیری آکے خزانہ لٹا دیا
ارمان لے کے آئے تھے دیدار کا تیرے
تو نے نقاب میں وہی مکھڑا چھپا لیا
عاشق تھے ہم بھکاری نہیں تھے جنہیں یہاں
تو نے حقارتوں سے جھڑک کر بھگا دیا
خوشیوں کا ایک میلہ سجایا تھا ہم نے بھی
تو نے غموں کو لا کے وہیں پر بسا دیا
یادیں تیری ستاتی نہیں اب ہمیں یہاں
اشکوں کے ساتھ انکو ملا کر بہا دیا
لکھا تھا تیرا نام جو دل کی کتاب پر
اسکو جگر کے خون سے دھو کر مٹا دیا
امید کے چراغ جلا کر رکھے تھے جو
باد ستم نے آ کے انہیں بھی بجھا دیا
تیری اداؤں سے جو بہل جائیں ہم نہیں
وہ اور تھے جنہیں ہے تھپک کر سلا دیا
اشہر سے بچ کے رہنا کہ شعلہ صفت ہے یہ
حد سے گزرنے والوں کو اس نے جلا دیا