قیامت ہی قیامت ہوبہو ۔ توبہ توبہ
آئینہ اور تیرے روبرو ۔ توبہ توبہ
پھول کھل کھل کے سب بکھرنے لگے
ایسی یلغار ہوئی کوبکو ۔ توبہ توبہ
ہاتھ اپنے ہی گریباں پہ کبھی آگہی پہ
ایسی بے ڈر تمہاری جستجو ۔ توبہ توبہ
صبح پرنور جا گی یا تیری اٹھی پلکیں
رند بھی کرنے لگے ہیں وضو ۔ توبہ توبہ
کہاں شمع میں اتنی تاب کہ دھیرے پگھلے
ہائے پروانے تیری آرزو ۔ توبہ توبہ
وہ دل کا پوچھنا جناب سے رشتہ خود کا
وہ کہنا “تیری رگوں کا لہو“ توبہ توبہ
ہم اہل ارض بھی شوق و شعور رکھتے ہیں
چاند تاروں سے تیری گفتگو ۔ توبہ توبہ
جو بھی ہے حرف و معانی سے ماورا ہے کچھ
غزل ہے ۔ نظم ہے ۔ کہ صرف تو ۔۔ توبہ توبہ