اک عمر بیتی سکوں پانے کے لیے
زندگی جھیلی ہے مرجانے کے لیے
ضروری تھا کے ہم پاگل ہوجائیں
یہی صورت نکلی بھلانے کے لیے
آپ بے وفائی گر نا کرتے ہم سے
کہاں داستاں لکھتا زمانے کے لیے
نا حدِ خنجر دکھائیں کہ بےرخی
بس کافی ہے ہمیں ڈھانے کے لیے
تیر سینے سے آر پار کر دیا ہمارے
اک تنکا تھا چرایا آشیانے کے لیے
تف شکوائے یار پر کہ پس مرگِ
گلے اٹھا لائے ہیں سنانے کے لیے
ہم روٹھ بھی جائیں ان سے مگر
وہ کہاں آئیں گے منانے کے لیے
آپ تشریف لائیں کے آپ کے قدم
ضروری ہیں ہمارے آستانے کے لیے
ہمارے سامنے غیر ہاتھ تھام لیا
انہیں اور نا سوجھی جلانے کے لیے
آپ سامنے آئیں ہمیں جینا ہے جہاں
مریض کو دوا چاہے شفا پانے کے لیے