تُو بتا یار ترا درد اُٹھاؤں کب تک
میں تری یاد کو سینے سے لگاؤں کب تک
آخرش میں بھی ہوں انسان مجھے جینا ہے
زیست یادوں کے سہارے میں بِتاؤں کب تک
اب تو ہر پل مری تنہائ مجھے ڈستی ہے
گھر کی دیواروں کو غم اپنا سناؤں کب تک
اپنے احباب کی بھی فکر تو رکھنی ہے مجھے
میں ترا درد لیۓ خود کو جلاؤں کب تک
آنکھیں اب اور نہیں اشک اُٹھا پائیں گی
تیرا غم لوگوں سے اے یار چھپاؤں کب تک
اب مجھے ہجر سے اے یار رہائ دے دے
اپنی حالت پہ میں لوگوں کو ہنساؤں کب تک
اب تو پل بھی نہیں کٹتا مرا تجھ بن باقرؔ
تیری تصویر کو رو رو کے مناؤں کب تک