تھا نہیں پیار شرارت کی ہے
ہم نے ہر وقت حکومت کی ہے
دل لگا بیٹھا نہ جانے کیوں اب
پیار کرنے کی حماقت کی ہے
اس لیے میرا نہ بن کوئی سکا
ہم نے غربت میں رفاقت کی ہے
خوب صورت نہیں اتنا تھا میں
اس لیے چاند کی حسرت کی ہے
تم نے سمجھی نہ محبت میری
کب کہاں ہم نے دبازت کی ہے
کرب میں آئے تھے حالات مرے
نہ کبھی تم سے شکایت کی ہے
دیکھ شہزاد نہ لے پھر دشمن
ہم نے چھپ چھپ کے عبادت کی ہے