تھما کے پھول نے خوشبو ہوا کے ہاتھوں میں
یہ دل ہے رکھنا کہا دلربا کے ہاتھوں میں
اگر قبول وہ کر لے تو شکریہ کرنا
ہو منفی لہجہ لے آنا اٹھا کے ہاتھوں میں
کہا بھلانے کی کوشش ضرور تم کرنا
ہمارے ماضی کی یادیں تھما کے ہاتھوں میں
ہے سانس چلتی مگر دے گیا وہ موت ہمیں
کسی وہ غیر کی مہندی لگا کے ہاتھوں میں
ہمیں خیال ہے اس کا جہاں میں عزت ہے
یہ زندگی تو ہے ورنہ خدا کے ہاتھوں میں
خمار کتنا ہے اس کو ہماری چاہت کا
مجھے بتائے وہ گیسو گھما کے ہاتھوں میں
تھی اس نے خاک اٹھائی ہوئی نا جانے کیوں
خطوط پیار کے سارے جلا کے ہاتھوں میں
یہ جعفری کی نصیحت ہے باندھ لو پلے
مرے گا راز جو دے گا فضا کے ہاتھوں میں