تھک کے گِر جائیں گے صحرا میں سفر چھوڑیں گے
قحط پڑتے ہی پرندے سبھی گھر چھوڑیں گے
تھک کے ڈوبے گا کہیں دن کا ستایا سورج
شام کو سائے اداسی میں شجر چھوڑیں گے
نسلِ آدم سے بقا میں ہے وجودِ ہستی
ختم ہو جائے گی دنیا جو بشر چھوڑیں گے
اپنے الفاظ کی زد میں سے بچا رکھ مجھ کو
حادثے ہونگے تو پھر دُور اثر چھوڑیں گے
ترکُ دنیا کا یہ پردہ وہ فقیروں کے لباس
بھوک بڑھتے ہی یہ درویش نگر چھوڑیں گے
اُس کو کھونا تو نہ آساں تھا زمانے میں عقیل
چھوڑنا موت کے جیسا ہے مگر چھوڑیں گے