نگاہ ناز سے پروانہ جل بھی سکتا ہے
تیرا فسانہ حقیقت میں ڈھل بھی سکتا ہے
قدم اٹھاؤ تو رکھنا خیال اپنا بھی
دل خاموش جنوں میں مچل بھی سکتا ہے
وفور شوق میں لغزش سے درگزر کرنا
ہجر ہے ۔ خواب کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے
اے چشم یار جسے تم گرانا چاہتی ہو
یہ اشک وقت کے دھارے میں چل بھی سکتا ہے
بپا کیا ہے جو تیری ہی آرزوؤں نے
یہ حشر آپکے جلووں سے ٹل بھی سکتا ہے
اے ذوق حرف کیوں نہ اور اہتمام کریں
لباس شعر میں جذبہ پھسل بھی سکتا ہے