تیری آنکھوں میں وہ سپنے ہیں کہ نہیں
ادھورے خواب وہ رتجگے ہیں کہ نہیں
پرندوں کے نغموں کیلئے بیتاب
رات کے پہلو میں وہ سویرے ہیں کہ نہیں
ستاروں کی گزرگاہوں سے کہکشاں تک
وہ رستے اب بھی جگمگاتے ہیں کہ نہیں
چاندنی راتوں میں پورے چاند کے منظر
اب بھی لہروں میں شور اٹھاتے ہیں کہ نہیں
وہ نسیم سحر میں خوشبوؤں کے جھونکے
رخسار گل پہ شبنم کے قطرے ہیں کہ نہیں
وہ آرزؤں کے خواہشوں کے سلسلے
وہ اپنے ہی دل پر اختیارات ہیں کہ نہیں
وہ بارشوں میں قوس و قضا کے منظر
اب بھی موسم کا حسن بڑھاتے ہیں کہ نہیں
وہ پھولوں کے گجرے وہ مہندی کا رنگ
سادگی حسن پر بہار لاتے ہیں کہ نہیں