تیری آنکھوں نے نوچ دیا تو اک افسانہ بنائے بیٹھے
ٹھہرے جو مرغوُب حسرت پہ تو خود دیوانہ بنائے بیٹھے
زندگی کو فیاض اور کشیدہ دلی سے بھی نہیں دیکھا
راہیں کہیں اور تھیں ہم تو اک ٹھکانہ بنائے بیٹھے
پیا کہاں تھا ہم کو یونہی حالات گراتے رہے
اس آنکھ کے چھلکے کو سب مئخانہ بنائے بیٹھے
عاجزی بھی اتنی رہی کہ پاؤں کی مٹی بن گئے
بے خبری تھی کہ اک انسان کو خدا بنائے بیٹھے
ہم وہ ہیں سنتوش جو خود تو سنورتے بھی نہیں
لیکن لوگوں کو کہدیا کہ ہم زمانہ بنائے بیٹھے