تیری باتوں کے سرگم اَثر میں اُتر جائیں
لمحے وہ ہی ہیں جو ہِجر میں اُتر جائیں
یوں تو آنکھوں کے پیام ہیں اپنے اپنے
ایسا بھی نہ ہو کہ کسی کی نظر میں اُتر جائیں
تیرے روش اس لیئے دل بہلائے رکھتے ہیں
کہ میری سبھی خاموشیاں خنجر میں اُتر جائیں
گئے غموں کا کوئی غم نہیں سنتوشؔ مگر
پھر نہ سوچنا کہ دن فکر میں اُتر جائیں