تیری دنیا سے ہٹ کر سوچا تو کچھ بھی نہیں
اے عشق! تیری عظمت سے اوچا تو کچھ بھی نہیں
اس روگ میں اکثر لوگ اجُڑ جاتے ہیں
اگر کوئی بے بسی کا سر نیچا تو کچھ بھی نہیں
دل کے درزوں کو سینے لیئے گر اس کے ہاتھ ہیں
پھر رفوگری کو مل گیا کانٹا تو کچھ بھی نہیں
تردستی سے اجاڑدو یہ تو اداؤں کو کام مل گیا
انہیں سزاؤں میں پھر سر گیا تو کچھ بھی نہیں
اک ظریف تو میری بھی زندگی ہے دیکھ
کسی نے تشنگی سے چاہ لیا تو کچھ بھی نہیں
آنکھ کے سمندروں میں کوئی آگ بہتی ہے
کوئی اپنی حسرت لے ڈوبا تو کچھ بھی نہیں
اس شوخی سے سارا عالم اداس ہے سنتوشؔ
کوئی امنگوں کا عادی مرگیا تو کچھ بھی نہیں