میں تو اک نام ہوں محزوف تری محفل میں
ذکر اب میرا ہے موقوف تری محفل میں
لوگ ہیں اور بھی ، سب سے ہے الگ میرا رقیب
بس کہ رہتا ہے وہ موصوف تری محفل میں
اپنے کم ہونے کا احساس ستاتا ہے مجھے
لوگ آتے ہیں جو معروف تری محفل میں
کر رہے تھے دبے لفظوں میں کسی کی غیبت
سارے شرکا تھے یوں مصروف تری محفل میں
ہائے قاصد نے اسے کھول کے خود پڑھ ڈالا
ایک خط بھیجا تھا ملفوف تری محفل میں
مال و زر کاش کہ تقدیر میں لکھوا سکتا
نام ہوتا مرا معروف تری محفل میں