تیری چاہ میں رو کر بھی پاس احترام رکھا
اپنی آ نکھوں کے گہر کو گرنے نہیں دیا
جس شب چھوڑا تھا تم نے
اس شب سے جلتے دئیوں کو بجھنے نہیں دیا
اب بھی تیری بانہوں میں سمٹنے کا احساس زندہ ہے
کسی اور مسیحائی میں خود کو بکھرنے نہیں دیا
تیری یاد کا گہنا ہے ایسا پہنا کہ
کسی زیور سے اس وجود کو سجنے نہیں دیا
تیرے ہی کی شاعری کرتی ہوں اب بھی صبح و شام
اپنی قلم کی نوک پہ کسی اور کو اترنے نہیں دیا
‘
بہت عقیدت ہے تیرے واسطے مجھ میں
تو نہ ٹھہرے قصوروار تو اپنے حال کو بگھڑنے نہیں دیا
اک آس ہےتو آئے گا لوٹ کے اک روز
اس یقین نے مجھے ابھی تک مرنے نہیں دیا