تیری یادوں کا راستہ ہو کر
پھر بھی تنہا ہوں قافلہ ہو کر
خوف رہتا ہے روبرو میرے
میری آنکھوں کا آئینہ ہو کر
غم میں ڈوبا ہوا ہے ہر بچہ
اپنی آہوں میں مبتلا ہو کر
کتنی نادان ہوں ترے غم میں
خاک ہو بیٹھی ہوں سوا ہو کر
کیوں وہ ڈرتا ہے بیچ دریا کے
وشمہ کشتی کا نا خدا ہو کر