اے دوست ترے عشق کے مارے بھی عجب ہیں
جیسے تری یادوں کے سہارے بھی عجب ہیں
یہ گیسؤے ابریں یہ گھنی چھاؤں کے مسکن
اک کنول پہ دو نین خمارے بھی عجب ہیں
پر کیف نظارے سے ترے خؤش ہیں شگوفے
کرتے ہیں جو وہ مست اشارے بھی عجب ہیں
بدلے ہیں کئ رنگ تجھے دیکھ کے گل نے
جلتے ہیں تجھے دیکھ شرارے بھی عجب ہیں
ہے رونق افزوں ترا انداز بہاریں
حسرت سے تجھے دیکھیں نظارے بھی عجب ہیں
یہ چاند زمیں کا جو کبھی دیکھیں ستارے
چھپ جاتے ہیں کیوںچاند ستارےبھی عجب ہیں
اب آئیں چمن میں جو کبھی موسم گل بھی
مڑ جاتے ہیں وہ شرم کے مارے بھی عجب ہیں
طاہر ہے طلبگار نوازش کوئ دم اور
لگتا ہے نصیب اب کے ہمارے بھی عجب ہیں