تیرے خیال بغیر رات نہیں ہوئی
کیوں اب تلک یہ مِری نجات نہیں ہوئی
منصف کو تحفے نہیں گئے ابھی تک کوئی
مطلب کہ شہر میں واردات نہیں ہوئی
نکلی نہیں وہ بھی آج کھڑکی پہ جانے کیوں
پھر آج حسن کی بھی زکوٰۃ نہیں ہوئی
بڑھتی جدائی بگاڑ کچھ بھی نہیں سکی
کہ ختم مِری کوئی حیات نہیں ہوئی
کرنی ہزار تھی باتیں آج تم سے میں نے
ہر بات ہوگئی دل کی بات نہیں ہوئی