ہم تیرے دل میں اس بہانے آئے
کیا بہانہ تھا دل تم سے لگانے آئے
تمہیں معلوم ہو نا پایا ہماری آمد کا سبب
اپنی خواہش تھی کہ ہوش ٹھکانے آئے
مدت سے تشنگی تھی تم سے بات کرنے کی
بڑے دنوں بعد آج یہ پیاس ہم بجھانے آئے
رات کو سو نا سکے دن کو بے چین رہے
نیند بھیجو کہ وہ ہمیں آکے سلانے آئے
جب شاعری کرتے ہو تو پیاری کرتے ہو
یہ بات کون اصغر کو سمجھانے آئے