قاتل کے قصے، مقتل کی باتیں ہیں
آج کی محفل میں بھی کل کی باتیں ہیں
دیوانوں پر اک اک لمحہ بھاری ہے
ہوش کی باتیں کتنی ہلکی باتیں ہیں
اپنی لہتی دستی پر میں شرمندہ ہوں
تیرے لبوں پر تاج محل کی باتیں ہیں
یہ فصیلوں میں گھرا راج محل کس کا ہے
یہ پراسرار در و بام، انوکھے فانوس
بربط و چنگ و خم جام لئے دست بدست
منتظر کس کے ہیں یہ زہرہ جبینوں کا جلوس
میں شہنشاہ زمن ہوں کسے معلوم نہیں
ہر طرف موجب تعمیل ہیں فرمان میرے
میرے ادنیٰ سے اشارے پہ ہیں سب رقص کناں
یہ سپاہی، یہ حسینائیں، یہ دربان میرے