تیرے نام کا ورد پِیا
ہونٹوں کی مجبوری ہے
میرے وقت کی دلہن نے
چپ کا زیور پہنا ہے
ہجر زدہ دیوانوں کو
موسم راس نہیں آتے
میں اپنی تنہائی سے
سب کچھ ٹھیک نہیں کہتا
آپ کبھی خاموشی سے
باتیں کر کے دیکھو نا!
میری آنکھ میں ساون کے
بادل چھائے رہتے ہیں
خواب خفا ہو جاتے ہیں
محرومی رہ جاتی ہے
بے ہوشی کے عالم میں
ہوش محبت کیا کرتے