جادو کرتا ہے وہ بس خاموش نظر سے
یہی جادو دیکھ رہی ہوں لمبی عمر سے
دلچسپ ہے اُسکا مست آنکھوں سے دیکھنا
میں خوش ہوں اُس کے مست منظر سے
زبان کھول نہ دے ٗ کہیں یہ ادا نہ چھوڑ دے
اظہارِ وفا نہیں کرتی مَیں اِسی ڈر سے
دُعائیں لیتا ہے لمبی لمبی دِکھا کے آنکھیں
داد لیتا ہے وہ شام و سحر اِسی ہنر سے
پیاس کا وسیع سمندر ہیں وہ مدہوش آنکھیں
خود مے و جام بھی ٗٗٗ یہ چرچا ہے شہر سے
جو پڑا تھا گھائل اِک عمر سے دشت میں
جی اُٹھا دیوانہ اُس کی اِک ہی لہر سے
للچا گئی روح زندگی پانے کے لیے پل میں
کام لے رہی تھی اندھیر نگروں میں صبر سے
اُس کا آنا ہی عذاب و زوال ہوتا ہے
صدائیں اُٹھنے لگتی ہیں دیوانوں کی قبر سے