جانتا ہوں وہ میری غزل کا عنوان نہیں تھا
پھر بھی ہر لفظ میں جانے وہی کیوں تھا
نہ زبر نہ ہی کوئی پیش تھا
پھر بھی ہر لفظ میں تو ہی تو کیوں تھا
ہر کوئی تو میرے آس پاس تھا
پھر بھی ہجوم میں تنہائی کا زہر کیوں تھا
لمحوں میں جو لمس تھا وہ بے ربط سا کیوں تھا
شناسا سے چہروں میں خان تو ہی اجنبی تھا
ہر چہرہ اسی کے حسن کا محتاج کیوں تھا