اب تو آجاتے ہیں دو چار پُرانے والے
ورنہ رُخصت تھے، سبھی ہم سے نبھانے والے
دم رُخصت تو عُدو اُٹھ کے گلے ملتے ہیں
تم کیوں اب روٹھ کے بیٹھے ہو ستانے والے
کتنا بیباک، بڑا شوخ، بہت ناداں تھا
اب وہ انداز کہاں تجھ میں پُرانے والے
ہائے! یہ عمرِ رواں جاکے کہاں پر ٹھہرے
ہم ہیں راضی بہ رضا، میرے ٹھکانے والے
یہ مکافات عمل بھی تو تسلی ہے میاں
ہم نے ہنستے ہوئے دیکھے ہیں، رُلانے والے
اُس نے غازے کو بکھیرا ہے ترے گالوں پر
کتنے عیار ہیں یہ تُجھ کو سجانے والے
تُجھ سے بچھڑا ہوں تو تقدیر نے اپنایا ہے
یعنی میں خوش ہوں ترے بعد بھی، جانے والے
مُلتفت، وقف نہ مائل بہ تکلم عاؔبد
یاد رہتے ہی نہیں، اُس کو بھلانے والے