جانے کب شہرِ غریباں میں اُجالا ہو گا
جانے کب شہرِ غریباں میں اُجالا ہو گا
میرے گلشن کو بھی خاروں سے ازالہ ہو گا
دکھ سبھی دور اور ہر طرف مسکان عیاں
چار سو چار سمت خوشیوں کا ہالہ ہو گا
زرِبلاد سے نہ ہو گی پھر شکمِ سیری
گرد ہم وطنوں کے حدود کا جالا ہو گا
نہ کسی حِزب نے پھر شہر کی گلیوں پہ
تلفی ءِ حق کا جلوس نکالا ہو گا
وطن نہ سوچا میں نے تجھ کو توڑتے لمحے
تجھے قائد نے بڑے کرب سے ڈھالا ہو گا