جب آنگن میں شام اترتی ھے، کچھ خوف ستانے لگتے ھیں
کچھ خواب جو کب کے ٹوٹ چکے، وہ یاد آنے لگتے ھیں
پھر شب کی کالی سیاھی میں، کچھ کالے سائے ابھرتے ھیں
تب سانس روکے، بنا آواز، شدت سے چلانے لگتے ھیں
کچھ روپ دھارے یاروں کے، کریدنے کو زخم لپکتے ھیں
جس ساز سے درد جاگ اٹھیں، وہ ساز بجانے لگتے ھیں
تلخ یادوں سے رشتہ توڑنا گو اتنا آسان تو نہیں ھے
پر کوشش جب بھی کی میں نے، وہ یاد دلانے لگتے ھیں
کس نے پکارا ھے چارہ سازوں کو، انھیں کہو لوٹ جائیں
میں جس کو بھولنا چاہتا ھوں، وہ اسی کو دھرانے لگتے ھیں
انھیں کہو نہ چھیڑیں مجھ سے، نہ پوچھیں میرے پیار ک قصہ
دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ کے، کئی درد جگانے لگتے ھیں
یہاں دو قدم چلنے کے بعد، پھر لوٹ جاتے ھیں لوگ
صرف یہی نہیں، وہ لوٹ کر بھی، کئی ظلم ڈھانے لگے ھیں