جب بھی ہم دل کی بات کرتے ہیں
ان کے تیور بہت بگڑتے ہیں
بھیگے موسم کا اک تقاضا ہے
وہ تقاضے کہاں سمجھتے ہیں
آشنا ہم کہاں زمانے سے
خود سے بھی اجنبی سے ملتے ہیں
اپنی طرز فغاں انوکھی ہے
رونے میں بھی ذرا سا ہنستے ہیں
کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچ تو لو
لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
دل میں الفت کے ہی نہیں ،غم تو
اور بھی بے شمار رہتے ہیں
کل جو لوگوں پہ ظلم ڈھاتے رہے
اپنے سائے سے آج ڈرتے ہیں
لوگ وہ ہی عظیم ہیں زاہد
جو سچائی کا ساتھ دیتے ہیں