جب تری آگہی نہیں ہوتی
پھر کوئی زندگی نہیں ہوتی
زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں
جب تری روشنی نہیں ہوتی
عقل پر تو ہَوس کے پردے ہیں
اِس لئے آگہی نہیں ہوتی
اپنی بستی کو کیا ہوا یا رو
کسی لب پر ہنسی نہیں ہوتی
دیکھ کر اب تو رشتہ داروں کو
کسی گھر میں خوشی نہیں ہوتی
تیری دنیا میں اب کہیں یارب
حاصل آسودگی نہیں ہوتی
زر پرستی سے بڑھ کے اے لوگو
کوئی خصلت بُری نہیں ہوتی
دوست احباب ساتھ چھوڑ گئے
اب یہاں مے کشی نہیں ہوتی
عشق دنیا سے کرنے والوں کی
نفرتوں میں کمی نہیں ہوتی
دشمنوں سے ہیں پیار کی پینگیں
اپنوں سے دوستی نہیں ہوتی
بھوک اور ننگ ہے مگر پھر بھی
نفرتوں میں کمی نہیں ہوتی
پہلے خوش ہو کےلوگ ملتے تھے
ملنے پہ اب خوشی نہیں ہوتی
اب کہاں اُس کا ناز ِ محبوبی
اب وہاں دلبری نہیں ہوتی
جس کو دیکھو وہی ہے حاجت مند
اب کہاں مفلسی نہیں ہوتی
نشہ کب اُترا ہےمحبّت کا
کب یہاں شاعری نہیں ہوتی
شاعری وارداتِ قلبی ہے
دل بِنا شاعری نہیں ہوتی
جادو جیسا اثر تو رکھتی ہے
پر یہ جادوگری نہیں ہوتی
بیٹھ جاتا ہوں دھوپ میں اکثر
چھاؤں اب یاں گھنی نہیں ہوتی
جستجو کے بغیر اے یا رو
کامیابی کبھی نہیں ہوتی
نفرتوں کی اندھیری راتوں میں
پیار کی چاندنی نہیں ہوتی
دل کو اپنے اُجالتے رہئے
جب تلک عاجزی نہیں۔ ہوتی
وہ جو رس گھولتے تھے اب اُن کے
لہجے میں چاشنی نہیں ہوتی
ساری دنیا کو کون سمجھائے
عاشقی سر سری نہیں ہوتی
پہلا اور آخری سبق یہ ہے
عشق سے واپسی نہیں ہوتی
بھوک اور ننگ جس جگہ پر ہوں
پھر وہاں آشتی نہیں ہوتی
جس جگہ ظلم راج کرتا ہو
وہاں رحمت کبھی نہیں ہوتی
مدّتیں ہو گئیں ہیں توبہ کئے
اس طرف سے کمی نہیں ہوتی
چاند شب بھر بھٹکتا رہتا ہے
جب تری چاندنی نہیں ہوتی
آگ سینے میں جو نہ بڑھکائے
پھر وہ دل کی لگی نہیں ہوتی