جب تری آگہی نہیں ہوتی
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreجب تری آگہی نہیں ہوتی
پھر کوئی زندگی نہیں ہوتی
زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں
جب تری روشنی نہیں ہوتی
عقل پر تو ہَوس کے پردے ہیں
اِس لئے آگہی نہیں ہوتی
اپنی بستی کو کیا ہوا یا رو
کسی لب پر ہنسی نہیں ہوتی
دیکھ کر اب تو رشتہ داروں کو
کسی گھر میں خوشی نہیں ہوتی
تیری دنیا میں اب کہیں یارب
حاصل آسودگی نہیں ہوتی
زر پرستی سے بڑھ کے اے لوگو
کوئی خصلت بُری نہیں ہوتی
دوست احباب ساتھ چھوڑ گئے
اب یہاں مے کشی نہیں ہوتی
عشق دنیا سے کرنے والوں کی
نفرتوں میں کمی نہیں ہوتی
دشمنوں سے ہیں پیار کی پینگیں
اپنوں سے دوستی نہیں ہوتی
بھوک اور ننگ ہے مگر پھر بھی
نفرتوں میں کمی نہیں ہوتی
پہلے خوش ہو کےلوگ ملتے تھے
ملنے پہ اب خوشی نہیں ہوتی
اب کہاں اُس کا ناز ِ محبوبی
اب وہاں دلبری نہیں ہوتی
جس کو دیکھو وہی ہے حاجت مند
اب کہاں مفلسی نہیں ہوتی
نشہ کب اُترا ہےمحبّت کا
کب یہاں شاعری نہیں ہوتی
شاعری وارداتِ قلبی ہے
دل بِنا شاعری نہیں ہوتی
جادو جیسا اثر تو رکھتی ہے
پر یہ جادوگری نہیں ہوتی
بیٹھ جاتا ہوں دھوپ میں اکثر
چھاؤں اب یاں گھنی نہیں ہوتی
جستجو کے بغیر اے یا رو
کامیابی کبھی نہیں ہوتی
نفرتوں کی اندھیری راتوں میں
پیار کی چاندنی نہیں ہوتی
دل کو اپنے اُجالتے رہئے
جب تلک عاجزی نہیں۔ ہوتی
وہ جو رس گھولتے تھے اب اُن کے
لہجے میں چاشنی نہیں ہوتی
ساری دنیا کو کون سمجھائے
عاشقی سر سری نہیں ہوتی
پہلا اور آخری سبق یہ ہے
عشق سے واپسی نہیں ہوتی
بھوک اور ننگ جس جگہ پر ہوں
پھر وہاں آشتی نہیں ہوتی
جس جگہ ظلم راج کرتا ہو
وہاں رحمت کبھی نہیں ہوتی
مدّتیں ہو گئیں ہیں توبہ کئے
اس طرف سے کمی نہیں ہوتی
چاند شب بھر بھٹکتا رہتا ہے
جب تری چاندنی نہیں ہوتی
آگ سینے میں جو نہ بڑھکائے
پھر وہ دل کی لگی نہیں ہوتی
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






