جب حجابِ حسیں رخ سے وہ ہٹا دیتے ہیں
چاند چہرے وہ حسینوں کے جھکا دیتے ہیں
زیست کے نہج سے ہے خوب ہی واقف ساجن
وہ ادھر کی ہی ادھر بات گھما دیتے ہیّں
کتنے اچھے ہیں خیالات مرے سجنا کے
جو جفاؤں کے ہی بدلے میں وفا دیتے ہیں
میری بھی زیست لگے عمر ہزاروں ہو برس
بس یہی ہم کو وہ ہر وقت دعا دیتے ہیں
دیتا رہتا ہوں میں اکثر ہی اسے تو دھوکے
وہ کسی طور بھی ہم کو نہ دغا دیتے ہیں
پہنچ جاتا ہوں خیالوں کی میں جب دنیا میں
خواب آتے تو بہت ہیں وہ جگا دیتے ہیں
دیکھے اک بار جو بھی پیار بھری نظروں سے
رنج و غم کرب سبھی اپنے تو بھلا دیتے ہیں