دور دور رہ کر بھی وُہ پیاسا نکلا
ہاتھ بڑھایا تو وُہ بھی شناسا نکلا
جسے میں پیار سے عاری سمجھا تھا
میرا پیار تو اُس کا خاصہ نکلا
بھٹکتا رہا، میں غیر کے در پر
آنکھ کھلی تو زمانے کا جھانسہ نکلا
دنیا کو سمجھا تھا، اہل درد میں نے
جب راز کھلا تو فقط اک تماشا نکلا
جس بت کی میں کرتا رہا تھا پوجا
وُہ بت میرے ہی ہاتھ کا تراشا نکلا
آرزوؤں کا تاج محل جسے میں سمجھا تھا
جاوید کی آرزوؤں کا وہ لاشا نکلا