جب سے تیری چھاپ لگی ہے مجھے
ہر لحظہ آس سی لگی ہے مجھے
کر دیگا سرشار اک روز تو مجھے
کیوں یہ خوش گمانی سی رہتی ہے مجھے
لوگ کہتے ہیں بڑا مغرور ہے میرا سجن
پھر بھی میری تو سانس بندھی ہے اسی سے
بھلا کسی نے پتھر کو پگھلتے ہے دیکھا؟
نہ جانے کیوں مجھے پتھر سے آبشار نکالنے کی ضد سی چڑھی ہے؟
آآنکھیں بن گئی ہیں ساکت سی جھیلیں
کچھ ایسے عکس کی اس کے شبیہ سی بنی ہے