جب سے وہ لڑکی دُور ہے
تب سے دل غم میں چُور ہے
اُس کا مسکراتا ہوا چہرہ
تاریکیوں میں اک نُور ہے
اگر غم ذدہ ہوں میں یہاں
اُداس وہ بھی ضُرور ہے
دو عاشق کبھی ملنے نہ پائے
یہی زمانے کا دستُور ہے
اِس جدائی میں تو یارو
نہ اُس کا نہ مرا قصُور ہے
رسم و رواج کی بندشیں
بے چارہ دل مجبُور ہے
لبِ جام پیئے جی بھر کے
مجھ سے اُسی کا سُرور ہے
نہال اُس لڑکی کے بغیر
سانس لینا بھی فضُول ہے