جب قصیدہ ترا لوگوں کو سُنا دیتا ہوں
کتنی آنکھوں میں ترے خواب سجا دیتا ہوں
شاعری ہے تو سہی خونِ جگر کا سودا
تری تصویر تو لوگوں کو دِکھا دیتا ہوں
لے کے خوشبو تری یادوں کے حسیں پھولوں کی
اپنی سانسوں کے تسلسل میں بسا دیتا ہوں
ترے ماتھےکے اُجالوں کی چمک سے پیارے
اپنی قسمت کے ستاروں کو جِلا دیتا ہوں
غنچہءِ دل کے چٹکنے کی صدا سے جاناں
کتنے سوئے ہوئے جذبوں کو جگا دیتا ہوں
اِک جہنّم سا دہکتا ہے بدن میں میرے
جب بھی جذبات کو سینے میں دبا دیتا ہوں
خون ہوتا ہے مگر کتنی تمناؤں کا
ترے افسانے کو جب رنگ نیا دیتا ہوں
دیکھتا ہوں جو کبھی خواب میں چہرہ تیرا
اپنے ہاتھوں سے دیئے غم کے بجھا دیتا ہوں
اپنی ہستی کو تری راہ میں بچھا کر اے دوست
عشق والوں کو میں منزل کا پتہ دیتا ہوں
شاید آ جائے پلٹ کر کبھی ساتھی میرا
دیپ اشکوں کے سرِ شام جلا دیتا ہوں
جب بھی گزرا ہے گماں تیرہ شبی کا یارو
لو میں زخموں کے چراغوں کی بڑھا دیتا ہوں
تلخ ہوتی ہے بہت میری بھی مے اے ساقی
غمِ دوراں غمِ جاناں میں ملا دیتا ہوں
شام ہوتے ہی میں مینائے غزل کی گردن
تری یادوں کی صراحی پہ جھکا دیتا ہوں
غم کی تلخی بھی ہے نایاب مگر اے لوگو
ذوق والوں کو مگر مفت پِلا دیتا ہوں
ایسے لگتا ہے کہ جنّت مرے قدموں میں ہے
جب میں نظریں ترے قدموں پہ جھکا دیتا ہوں
ایک دیوارِ انا بیچ میں حائل ہی رہی
وہ گراتے ہیں تو میں اس کو اُٹھا دیتا ہوں
ایسے لگتا ہے کہ جنّت کا مکیں ہوں جاناں
جب یہ آنکھیں تری راہوں میں بچھا دیتا ہوں
جب بھی لکھا ہے محبّت میں قصیدہ تیرا
ایک ہلچل سی دلوں میں میں مچا دیتا ہوں