جب میں پہلی بار جگا تھا
پہلے تیرا نام لیا تھا
پیپل کی اک ڈال پہ سورج
بیٹھا مجھ کو دیکھ رہا تھا
سناٹوں میں شوخ ہوا سے
کھڑکی کا پردہ ہلتا تھا
تیرے شہر کو جانے والا
وہ رستہ خود ہی چلتا تھا
دھوپ چٹائ پر لیٹی تھی
اور سمندر کھانس رہا تھا
آہ جدائی کا وہ لمحہ
چاند گلے لگ کر رویا تھا
کھڑکی سے وہ رات گئی تھی
دروازے سے دن آیا تھا
رسموں کے ظالم ہاتھوں پر
وعدوں کا اک پھول کھلا تھا
امیدوں کی ڈال پہ پھر سے
ایک پرندہ جا بیٹھا تھا
خواب کے سونے چھت پہ چشتی
سرد ہواؤں کا پہرہ تھا