موجِ نکہت نہیں ہے منظر میں
جتنے اوصاف ہیں قلندر میں
کیسے یہ زندگی گزاریں ہم
اب تو الجھن ہے جاناں گھر گھر میں
وہ تو رہتا ہے اور ہی در پر
جس کی یادیں ہیں میرے بستر میں
کوئی کیڑا نہ کھانے کو ترسے
رزق رکھا خدا نے پتھر میں
ان گلابوں کے بیچ رہتی ہیں"
کلیاں کس دور کے تصور میں"
اس کی تصویر جگمگاتی ہے
میری آنکھوں کے نیلے منظر میں
کچھ بھی لکھا نہیں ہے تختی پر
فصل گل کے یہاں مقدر میں
میری آنکھوں میں بس گیا تھا کوئی
میں بھی بیٹھی رہی سمندر میں
میں نے جانا تھا ملنے سجنا کو
اب وہ آتا نہیں ہے مندر میں
کچھ نہ وشمہ یہاں تلاش کرو
اس وفا کی زمین بنجر میں