جس دن سے ترے چہرے کا دیدار کیا ہے
اس دل نے تیرے ساتھ صرف پیار کیا ہے
سہمے ہوئے لہجے میں جو کاغذ کی زبانی
آغازِ محبت کا یہ اظہار کیا ہے
تصویر تری رہتی ہے ان آنکھوں میں جاں
قدرت نے عجب دیکھئے شہکار کیا ہے
جس رات تصور میں اتر آئے یہ چہرہ
اس رات تری یاد نے بیدار کیا ہے
جس پیار نے سکھلایا تھا جینے کا طریقہ
اس پیار نے اب جینا بھی دشوار کیا ہے
باتوں میں کسی غیر کی بے درد نے آ کر
برباد کیا ہے مجھے مے خوار کیا ہے
یہ پیار بھی کم بخت ہے اے جعفری ایسا
ہو گا یہ نہیں پھر سے جو اک بار کیا ہے