جس پھول پہ ہواؤں کا سایا نہیں رہا
تا دیر سرِ شاخ وہ ٹھہرا نہیں رہا
آنکھوں میں کوئی عکس نہ دل میں ترا خیال
اب منظروں میں کوئی بھی رستہ نہیں رہا
یہ قطرہ قطرہ درد سمندر میں کیا گرے
بہتا تھا جو حیات میں دریا نہیں رہا
جو بچ گیا تھا آج وہ فرقت میں مر گیا
پہلے سا زندگی! ترا چہرہ نہیں رہا
جب اس نے میری سوچ کی بینائی چھین لی
تب درد میرے شعر میں یکجا نہیں رہا
جس شخص کے نصیب پہ رکھے تھے اپنے ہاتھ
وشمہ وہ میرے پیار کا حصہ نہیں رہا