جس پہ شب کا ہر پہر انتظار گذرے
اس کا تو ہر لمحہ بس ناگوار گذرے
یہاں انجانے میں کئی زخم مل جاتے ہیں
چاہتے یہ بھی ہیں کہ وقت استوار گذرے
اپنے منتظر دیئے کو باد سے چھپا رکھا ہے
بھل کوئی ہوا کا جھونکا اپنی رفتار گذرے
عزت نفس کو پھر کہاں ڈھونڈیں گے
ڈر ہے کہیں احساس ذات نہ خوار گذرے
میری بے قصوری نے جو جو ہرجانے دیئے
خدا کرے تجھ سے ایسا نہ کوئی اضرار گذرے
اب تک جو بھی احسان، چکا دیئے جاتا ہوں
کہ پھر نہ زندگی سنتوش تیری زیربار گذرے