رہتی ہے صبح و شام تیری جستجو مُجھے
آتا ہے ہر طرف گو نظر تو ہی تُو مُجھے
جس کی نویدَ صبح کا کُچھ بھی نہیں یقیں
ایسی دَکھائی دیتی شب چار سُو مُجھے
اب کیا کروں میں رنجَ شکستَ دِل تباہ
معلوم تھی تمہارے تغافل کی خو مجھے
صحرا و دشت چھوڑ کے حد َ جنوں تلک
لے کر کہاں گئی نہ تیری آرزو مجھے
طاہر کسی میں اُن سی کوئی بات ہی نہ تھی
یوں تو ملے تھے اور کئی خوبرو مجھے