Add Poetry

جسم سے روح تک اترتی ہوئی

Poet: فاروق نور By: فاروق نور, Burhanpur

جسم سے روح تک اترتی ہوئی
ایک خوشبو تھی وہ بکھرتی ہوئی

جیسے طوفان کوئی ٹھہرا ہوا
جیسے آفت کوئی گزرتی ہوئی

اس کی پیشانی جیسے چڑھتی دھوپ
زلف اس کی تھی چھاؤں کرتی ہوئی

اس کے ابرو کوئی گھنا جنگل
اور پلک تھی اڑان بھرتی ہوئی

اس کا چہرہ تھا پھول کھلتا ہوا
آنکھ گویا تھی بات کرتی ہوئی

زلف اس کی سیاہ شب کی طرح
صبحِ عارض پہ شام کرتی ہوئی

اس کے دندان موتیوں جیسے
اس کی بولی دلوں کو ہرتی ہوئی

اس کے لب تھے چھلکتے پیمانے
اس کی گردن صراحی بھرتی ہوئی

اس کی آواز اک ندی طرح
دل کے ویرانے سے گزرتی ہوئی

اس کا سینہ کشادہ اک میداں
اس پہ چٹان وہ ابھرتی ہوئی

اس کمر کی لچک کو کیا کہئیے
جیسے ہرنی کوئی گزرتی ہوئی

اور مغرور مورنی کی طرح
دو قدم چلتی اور ٹھہرتی ہوئی

اس کی آنکھوں کی یاد ہے چتون
سہمی سہمی ہوئی سی ڈرتی ہوئی

یوں سنورتی تھی آئینے کے قریب
جیسے تقدیر ہو سنورتی ہوئی

میرے کمرے میں اب بھی ہے موجود
ایک تصویر بات کرتی ہوئی
 

Rate it:
Views: 169
15 Jun, 2023
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets